افسانچہ : گِدھ
سیف الرحمن ادیؔب
وہاں بہت ساری گنجی گردنیں بیٹھی تھیں، موت کے انتظار میں۔
گویا ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ ان کی تعداد کیا ہے؟
بےشمار گدھ، سب کی ٹکٹکی ایک ہی جانب بندھی ہوئی تھی،
سامنے موجود لاچار اور مسکین وجودوں پر،
جن کی دبتی سانسیں حرام خوروں کو نوید سنا رہی تھیں۔
اچانک کسی ایک کا سانس اُکھڑا، سینہ اُچھلا،
ہچکی آئی اور وہ بےدم ہو کر رہ گیا۔
ایک ساتھ کئی سفید پَر پِل پڑے اور اس کی لاش جھنجھوڑنے لگے۔
یہ تیسری دنیا کا آفت زدہ ملک تھا،
جسے عالمی گِدھ بری طرح نوچ رہے تھے۔