شاعر: اطہر اعظمی
نام: اطہر پرویز
قلمی نام : اطہر اعظمی
تاریخ پیدائش : ۱ جولائی ۱۹۶۵
جاۓ پیدائش : چاند پور
آبائی وطن : اعظم گڑھ
آغاز شاعری : ۱۹۹۵
تلمیذ : محترم شکیل جمالی صاحب
و محترم پرویز اختر صاحب
کتاب: ابھی کوئی نہیں
مشغلہ : کاروبار
پتہ : راغب نگر ، قاضی ذادگان ، چاند پور ۔۲۴۶۷۲۵
غزل
ڈری سی ، سہمی سی، اس سوگوار دنیا کا
خدایا بخش دے پھر سے قرار دنیا کا
تمہیں خبر تھی’ میں دنیا تمہیں سمجھتا تھا
تمہارے بعد کہاں اعتبار دنیا کا
سبھی یہ سوچ کے آنکھیں چُرا رہیں ہیں یہاں
ہمیں پہ تھوڑی ہے دارومدار دنیا کا
کسی کے جانے سے کب فرق پڑنے والا ہے
چلے گا ایسے ہی سب کاروبار دنیا کا
ذرا سی دیر کو قدرت نے آنکھ کیا بدلی
غرور ہو گیا سب تار تار دنیا کا
ہمارے حرص نے رنگت بگاڑ دی اس کی
تو آؤ کرتے ہیں پھر سے سنگار دنیا کا
اگر فقیری کا اتنا ہی شوق ہے اطہر
تو پھر اتارئے سر سے خمار دنیا کا
غزل
ہم لوگ جی رہے ہیں یہاں جس عذاب میں
بس اب زیادہ وقت نہیں انقلاب میں
تشنہ لبی کا سامنا ہوتے ہی کھل گیا
تبدیل کیسے ہوتا ہے دریا سراب میں
اس سے سوال کر کے میں خود ہی الجھ گیا
اتنے سوال رکھ دئے اس نے جواب میں
اس کے ہی نام سے تھیں یہاں ساری رونقیں
وحشت بسی ہے اب دلِ خانہ خراب میں
ان کے جواب بھی یہاں دینے پڑے ہمیں
ایسے سوال تھے ہی نہیں جو نصاب میں
اطہر رئیسِ ِشہر نے تسکین کے لئے
میرا لہو ملایا ہے اپنی شراب میں
غزل
ستمگروں کے عمل میں خلل ضروری ہے
ذرا بہت سہی ، ردِعمل ضروری ہے
ہر ایک بات پہ اچھی نہیں ہے خاموشی
ہے ناگوار ۔تو ماتھے پہ بل ضروری ہے
غرض نہیں ہے کہ دل میں خلوص کتنا ہے
مگر دکھاوا کرو آجکل ضروری ہے
سہوگے ظلم کہاں تک چلو اٹھو لوگو
اب اس نظام میں ردوبدل ضروری ہے
دل و دماغ سے کچھ تو غبار نکلےگا
گھٹن شدید ہے اطہر غزل ضروری ہے
غزل
کون ہے کتنے پانی میں
کھُلتا ہے طغیانی میں
کرداروں کو دوش نہ دو
ڈھونڈو جھول کہانی میں
بھولنا ہے آسان ہے اُسے
مشکل ہے آسانی میں
دفن ہیں کتنے سارے خواب
آنکھوں کی ویرانی میں
ذہن سے ہم مفلوج ہوئے
اس دل کی نگرانی میں
میری خموش شامل ہے
ظالم کی من مانی میں
اُتنا ہاتھ میں آئےگا
جتنا ہے پیشانی میں
غزل
ایک ہی مطلب ہے سب کا
کون ہے اپنے مطلب کا
سورج نے انگڑائی لی
نّشہ اتر گیا شب کا
اس ماحول میں زندہ ہیں
شکر ادا کریئے رب کا
آؤ نفرت پھیلائیں
لیکے سہارا مذہب کا
فنکاروں کو سمجھاؤ
جگ دیوانہ کرتب کا
اسکی یاد میں شعر ہوئے
جسکو بھول چکے کب کا
وہ جلدی سو جاتا ہے
میں شیدائی ہوں شب کا
اطہر آج بھی تازہ ہے
زخم پرانا اک کب کا
Abbas
ایڈمن سے رابطہ کیسے ممکن ہے؟