ظلم اور بربریت کے خلاف انقلابی آواز بلند کرنے میں اردو شاعری کا بہت کردار رہا ہے۔ جب ظلم بڑھ جاتا ہے تو انقلاب کی راہیں کھل جاتی ہیں۔ تخت الٹ دیے جاتے ہیں، اور تاج تاراج کر دیے جاتے ہیں۔ بہت سے معروف اردو شاعروں نے ظلم کے خلاف شعر کہے، انقلابی شاعری تخلیق کی۔ انہی موضوعات پر چند بہترین اشعار کا انتخاب پڑھیے۔

ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
ساحر لدھیانوی
۔
کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
جوش ملیح آبادی
۔
اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
حبیب جالب
۔
چلتے ہیں دبے پائوں کوئی جاگ نہ جائے
غلامی کے اسیروں کی یہی خاص ادا ہے
ہوتی نہیں جو قوم ، حق بات پہ یکجا
اُس قوم کا حاکم ہی بس اُن کی سزا ہے
فیض احمد فیض
۔
ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح
پروین شاکر

ظلم کے ہوتے امن کا ممکن یارو
اسے مٹا کر جگ میں امن بحار کرو
حبیب جالب
۔
حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی “اقراء” سے ہوا تھا
۔
منصفِ وقت ہے تو اور میں مظلوم مگر
تیرا قانون مجھے پھر بھی سزا ہی دے گا
منور رانا
۔
ابھی تک پائوں میں لپٹی ہیں زنجریریں غلامی کی
دن آ جاتا ہے آزادی کا ، آزادی نہیں آتی
۔
تاریخ کی سیاہی چہروں پہ اپنے مَل کے
کرتے ہین ہم غلامی، آقا بدل بدل کے
سکندر عقیل
ظلم مخالف انقلابی شاعری
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
ساحر لدھیانوی
۔
انقلاب آئے گا رفتار سے مایوس نہ ہو
بہت آہستہ نہیں ہے جو بہت تیز نہیں
علی سردار جعفری
۔
رنگ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب
چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں
قابل اجمیری
۔
یہ کہہ رہی ہے اشاروں میں گردش گردوں
کہ جلد ہم کوئی سخت انقلاب دیکھیں گے
احمق پھپھوندوی
۔
انقلاب صبح کی کچھ کم نہیں یہ بھی دلیل
پتھروں کو دے رہے ہیں آئنے کھل کر جواب
حنیف ساجد
۔
بہت برباد ہیں لیکن صدائے انقلاب آئے
وہیں سے وہ پکار اٹھے گا جو ذرہ جہاں ہوگا
علی سردار جعفری